Skip to main content

Posts

‏کُندن بہروپیا

  ‏کُندن بہروپیا اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک بہروپیا آیا اور اس نے کہا : " باوجود اس کے کہ آپ رنگ و رامش ، گانے بجانے کو برا سمجھتے ہیں - شہنشاہ معظم ! لیکن میں فنکار ہوں اور ایک فنکار کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور میں بہروپیا ہوں - میرا نام کندن بہروپیا ہے - اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں آپ کو جو اپنے علم پر بڑا ناز ہے کو دھوکہ دے سکتا ہوں اور میں غچہ دے کر بڑی کامیابی کے ساتھ نکل جاتا ہوں - اورنگزیب عالمگیر نے کہا : تمھاری بات وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے - میں تو شکار کو بھی بیکار کام سمجھتا ہوں یہ جو تم میرے سامنے دعوہ کر رہے ہو اس کو میں کوئی اہمیت نہیں دیتا - " اس نے کہا : " ہاتھ کنگن کو آرسی کیا - آپ اتنے بڑے شہنشاہ ہیں اور دانش میں اپنا جواب نہیں رکھتے - میں بھیس بدلونگا آپ پہچان کر دکھائیے - " تو انھوں نے کہا ! " منظور ہے " اس نے کہا حضور آپ وقت کے شہنشاہ ہیں - اگر تو آپ نے مجھے پہچان لیا تو میں آپ کے دینے دار ہوں - لیکن اگر آپ مجھے پہچان نہ سکے اور میں نے ایسا بھیس بدلہ تو آپ سے پانچ سو روپیہ لونگا - شہنشاہ نے کہا شرط منظور ہے

ببر شیر کو قتل کرنے والے صحابیؓ

  *‏ببر شیر کو قتل کرنے والے صحابیؓ* ••┈┈•••○○❁ ❁○○•••┈┈•• مسلمان فوج اور ایران کی فوج جنگ کے میدان میں جب آمنے سامنے آئے تو مسلمان حیران ہوگئے کہ ایرانی اپنے ساتھ لڑنے کے لیئے تربیت یافتہ شیر لائے ہیں !!! ان کے اشارے کے ساتھ شیر بھاگتا ہے گرجتا ھے مسلمانوں کی فوج میں سے ایک دل والا بہادر آدمی نکلا ! ‏وہ نڈر بہادر مسلمان ایک خوفناک اور ناقابل یقین اعتبار سے شیرکی طرف بھاگا اور میرا خیال ہے تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک آدمی, شکاری شیر کا شکار کرنے بھاگا ہو! دونوں فوجیں حیرت سے دیکھنے لگیں آدمی چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو شیر کا سامنا کیسے کر سکتا ہے!!! وہ بہادر,‏ہوا کی طرح شیر کی طرف اڑ کر گیا! اس بہادر کے سینے میں کامل مسلمان کا ایمان اور ہمت تھی! جو خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کا عقیدہ تھا کہ شیر ہی اس سے ڈرے گا! پھر اس نے اپنے شکار پر شیر کی طرح چھلانگ لگائی اور اس پر کئی وار کیے یہاں تک کہ اس نے اسے مار ڈالا!! ایرانیوں کے‏دلوں میں خوف طاری ہوگیا! وہ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جو شیروں سے نہیں ڈرتے تھے چنانچہ مسلمانوں نے انہیں جنگ کے شروع میں ہی بھگا دیا سعد بن ا

اردو کالمز پیج سے کاپی شدہ ایک معلومات انگیز تحریر۔

  اردو کالمز پیج سے کاپی شدہ ایک معلومات انگیز تحریر۔ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کرنل نیڈو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک افسر تھا. برصغیر آیا تو ایک گجر لڑکی پر عاشق ہوگیا. گجروں نے اسے اس شرط پر لڑکی دینے کی حامی بھری کہ وہ گجروں کی طرح زندگی گزار کر دکھائے . نیڈو نے ٹاٹ پہنا, جانور چرائے, دودھ دوہا اور بالآخر مسلمان ہوکر اپنی محبوبہ سے شادی کرلی. اسکی گجر بیوی رانی جی کہلاتی تھی۔ آدمی سمجھدار تھا. اس نے کشمیر میں جانوروں کی افزائش نسل کرنی شروع کردی. اور آہستہ آہستہ انگریز رجمنٹس کو گوشت کی سپلائی کا ٹھیکیدار بن گیا. نیڈو کی ایک ہی بیٹی تھی جو ماں کی طرف سے مکمل گجر تھی اور باپ کی وجہہ سے انگریزی زبان سے مکمل آشنا. نیڈو چونکہ مذہبی لوگوں سے بہت میل جول رکھتا تھا اور پیروں کا بہت خدمتگار تھا لہذا بیٹی بھی اسی رنگ میں رنگ گئی۔ مہشورِ زمانہ لارنس آف اربیہ یعنی کرنل ٹی اِی لارنس عربی زبان کا ماہر تھا. اسکی قرآت بہت اعلی اور معلومات انتہائی جامع تھیں. برٹش سیکریٹ سروس نے لارنس کو لاہور میں لانچ کردیا. جلد ہی مکہ کے بزرگ کی شہرت پھیل گئی. لوگ بہت بڑی تعداد میں آنے لگے اور کرنل لارنس انہیں ا

مثبت کردار عظیم لوگ

  ۔*✿❀࿐≼❍••══┅┄* *"مثبت کردار عظیم لوگ"* گھر سے کھانا آیا تو میں جوہر ٹاؤن لاہور سے یتیم خانہ چوک کے لیے نکلا، مجھے راستے کا علم نہیں تھا تو جگہ جگہ لوگوں سے پوچھا، پھر ایک سگنل پر ٹھہرے ہوئے پیزا ڈیلیوری والے سے کہا کہ میں نے یتیم خانہ چوک پر جانا ہے؟ جواب ملا "میرے ساتھ ساتھ آ جائیں" ۔ تقریباً سات سے آٹھ منٹ بائیک پر اس کے پیچھے پیچھے چلنے کے بعد اس نے کہا "اب یہ سامنے والا سگنل آپ کراس کریں گے تو آگے یتیم خانہ چوک ہے"۔ یہ کہہ کر وہ بائیک واپس موڑنے لگا۔ بہت شکریہ۔ لیکن ایک بات بتائیں گے؟ کیا آپ نے اسی جگہ پر پیزہ ڈیلیور کرنا تھا؟ مسکراتے ہوئے کہا "اس بات کو چھوڑ دیں بھائی" ۔ نہیں پلیز؟ میں جاننا چاہتا ہوں۔ آپ کی مہربانی ہوگی؟ "دراصل جس سگنل پر آپ ٹھہرے ہوئے تھے میں نے وہاں سے رائٹ جانا تھا"۔ تو آپ مجھے وہاں سے ہی بتا دیتے؟ آپ نے اپنا سفر بھی طویل کر دیا اور پیٹرول بھی ضائع کیا؟ "ضائع کیوں بھائی؟ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ میری بائیک میں موجود باقی پیٹرول میں برکت ڈالے گا یا پھر مجھے آج کے دن اس عمل کی وجہ

کُـشــتی کـا مُـقــابـلــہ

  * کُـشــتی کـا مُـقــابـلــہ * *بنی ہاشم میں ایک مشرک شخص رکانہ نامی بڑا زبردست اور دلیر پہلوان تھا* *اور کوئی جوان ایسا نہ تھا جس نے اسے گرایا ہو۔* وہ ایک جنگل میں جیسے ”اِضم“ کہتے تھے رہا کرتا تھا بکریاں چراتا تھا اور بڑا مالدار تھا، *ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ادھر جا نکلے،* رکانہ نے آپ کو دیکھا تو آپ کے پاس آ کر کہنے لگا، اے محمد! تو ہی وہ ہے جو ہمارے لات و عزیٰ کی توہین کرتا و تحقیر کرتا ہے اور اپنے ایک خدا کی بڑائی بیان کرتا ہے؟ اگر میرا تجھ سے تعلق رحمی نہ ہوتا تو آج میں تجھے مار ڈالتا، آ میرے ساتھ کُشتی کر، تُو اپنے خدا کو پکار، میں اپنے لات و عزیٰ کو پکارتا ہوں دیکھیں تو تمھارے خدا میں کتنی طاقت ہے؟ حضور نے فرمایا رکانہ اگر کُشتی ہی کرنا ہے تو چل میں تیار ہوں، رکانہ یہ جواب سن کر اول تو حیران ہوا اور پھر بڑے غرور کے ساتھ مقابلے کے لئے کھڑا ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی جھپٹ میں اسے گرا لیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گئے، رکانہ عمر میں پہلی مرتبہ گر کر بڑا شرمندہ ہوا اور حیران بھی اور بولا اے محمد! میرے سینے سے اٹھ کھڑا ہو میرے لات و عزیٰ نے میری ط

صہیونی

  وہ لوگ جنہوں نے اہلِ فلسطین پر شب خون مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا، انہیں اصطلاحی طور پر صہیونی کہا جاتا ہے۔ جب ہم صہیونزم یا صہیونی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ صہیون یروشلم کا ایک پہاڑ ہے۔ جس پر حضرت داود کا مزار بھی ہے۔ ابتداء میں یروشلم کا شہر یروشلم کے گرد واقع دوبلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں بسا تھا۔ یہ دونوں پہاڑ آج بھی یروشلم کے گرد مشرق و مغرب میں باہم مقابل واقع ہیں۔ ان میں سے مشرقی پہاڑ موریہ کہلاتا ہے جبکہ مغربی پہاڑ کو صہیون کہتے ہیں۔ صہیون اپنی قامت میں موریہ سے بلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان ؑ کے زمانے سے ہی یہودیوں کے درمیان تقدس اور احترام کی علامت ہے۔ یہودیوں نے 27 اگست 1897ء میں سوئزر لینڈ میں صہیونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔ بعد ازاں انجمن محبّین صہیون کے نام سے ایک تنظیم بنا کر اپنے منصوبے پر یہودیوں نے باقاعدہ کام شروع کی

*محبت میں گرفتار نوجوان نسل!*

  *محبت میں گرفتار نوجوان نسل!* میرے ایک انتہائی عزیز کو ایک لڑکی سے محبت ہو گئی دن رات فون پر لمبی گفتگو اور صبح شام محبوبہ کی گلی کے چکر لگاتا جب بھی ملاقات ہوتی، اُسی حسینہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پایا ہر وقت خیالوں کی دنیا میں رہتا خیر وقت گزرتا گیا اور بات لیلیٰ مجنوں کے گھر والوں تک جا پہنچی جب دونوں جانب بھڑکتی آگ کو دیکھا تو مزاحمت کے بجائے شادی کی تیاریاں شروع کر دیں گئیں مجھے بھی تقریب میں مدعو کیا گیا شادی کی رسم خوب دھوم دھام سے ہوئی پریمی جوڑے کے درمیان ہونے والی گفتگو اور انداز کو دیکھ کر تقریب میں آئے مہمان نا صرف رشک کر رہے تھے بلکہ ان کے لیے اچھے مستقبل اور خوشحالی کی دعائیں مانگ رہے تھے شادی کے چند ماہ اچانک اُس عزیز ملاقات ہوئی اور بھابھی کے بارے میں پوچھا تو اس کے لہجے میں چاشنی اور آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی بلکہ میری بات سنتے ہی افسردہ ہو گیا کافی ٹال مٹول کے بعد موصوف نے بتایا کہ لیلیٰ ناراض ہو کر میکے چلی گئی ہے اس بات پر مجھے بہت حیرانی ہوئی مگر موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے میں نے اُسے تسلی دی اور گھر کی راہ لی چند دن بعد معلوم ہوا کہ لیلیٰ کے گھر وال